مرزا غالب کا اصل نام اسداللہ غالب تھا غالب 1797 کو آگرہ میں مرزا عبداللہ کے ہاں پیدا ہوئے غالب کے دادا مرزا کوقان بیگ اپنے والد سے ناراض ہو کر مغلیہ بادشاہ محمد شاہ کے عہد میں سمرقند سے برصغیر آگئے ان کی زبان ترکی تھی ہندوستان کی کوئی بھی زبان وہ برائے نام ہی جانتے تھے غالب کے دادا مرزا کوقان بیگ نے پنجاب کے حاکم کے ہاں نوکری کی ۔ پھر اس کی وفات کے بعد دہلی چلے آئے اور نواب ذوالفقار الدولہ مرزا نجف خان کی سرکار سے وابستہ ہوئے مرزا کوقان بیگ نے مقامی لڑکی سے شادی کی جس میں سے تین لڑکیاں اور چار لڑکے پیدا ہوئے انہی میں سے ایک غالب کے والد مرزا عبداللہ بیگ بھی تھے مرزا عبداللہ بیگ کی شادی آگرہ کے امیر خاندان راجہ غلام حسین کے گھر عزت النساء بیگم سے ہوئی اور انہوں نے آگرہ کو ہی اپنا وطن بنا لیا مرزا  عبداللہ بیگ نے کئی جگہ ملازمت کی۔ پہلے لکھنؤ گئے جس کے بعد حیدرآباد گئے اور اس کے بعد ان کی ایک حادثے میں جان چلی گئی والد کی وفات کے وقت غالب کی عمر 5 سال تھی۔ والد کی وفات کے بعد غالب کی تمام تعلیم و تربیت کا فرض ان کے چچا مرزا نصراللہ نے اٹھایا۔ مرزا نصراللہ کی شادی نواب احمد بخشوالی لوہاروں کی ہمشیرہ سے ہوئی جس سے کوئی اولاد نا ہوئی اور وہ خاتون وفات پا گئی اس صورت میں نصراللہ بیگ نے بھائی کی اولاد کو بڑے ناز سے پالا  اور حقیقی والد جیسا پیار بھی دیا مگر وہ پیار بھی غالب زیادہ عرصہ نصیب نہ ہوا غالب کے چچا 4 سال بعد ہاتھی سے گر کر وفات پا گئے تو ان کے نانا خواجہ غلام حسین نے ان کی کفالت کی ذمّہ داری قبول کر لی اور اس طرح غالب کی ابتدائی تعلیم نانا کے زیر سایہ آگرہ میں ہوئی ابتدائی فارسی کی تعلیم انہوں نے مولوی محمد معظم سے حاصل کی یادگار غالب میں لکھا ہے  مرزا غالب کی ایک فارسی غزل پر مولوی محمد معظم نے پہلے اعتراض کیا بعد میں مرزا غالب نے اساتذہ کی غزلوں سے اسناد پیش کیں تو وہ بہت خوش ہوا اور حوصلہ افزائی بھی کی معروف شاعر اکبر آلہ آبادی  کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مرزا غالب کے ابتدائی استاد تھے مرزا غالب نے شاعری کا آغاز 12 سال کی عمر میں کیا اور بیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے اچھی خاصی ذخامت کا ایک دیوان مرتب کر لیا غالب کی شادی 13 سال کی عمر میں 10 اگست 1810ء کو نواب الہیٰ بخش کی صاحبزادی امرؤ بیگم سے ہو گئی یہ چونکہ دہلی میں ہوئی تھی اسلیے غالب نے دہلی میں مستقل طور پر رہائش اختیارکرلی غالب کے سات بچے پیدا ہوئے  مگر چھوٹی عمر میں سب اللہ کو پیارے ہو گئے پھر بیوی کے بھانجے عارف کو بیٹا بنا لیا مگر بدقسمتی سے وہ بھی جوانی میں چل بسا دہلی میں رہتے ہوئے غالب کے بہت سارے حریف پیدا ہو گئے اور غالب کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ ان کا کلام کو سمجھنا بہت مشکل ہے لوگ ان کی مشکل پسندی پر طنز کرتے تھے یہاں تک کہ مرزا غالب کو تنگ آ کر کہنا پڑا نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا گر نہیں میرے الفاظ میں معنی نہ سہی اس زمانے میں لوگ غالب کی شاعری کو سمجھنے سے قاصر تھے کیونکہ غالب کی شاعری کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کلیم آغا جان نے غالب اور میر کی شاعری کا یوں مذاق اڑایا کلام میر سمجھے یا زبان غالب سمجھے مگر ان کا کہا یہ آ پ سمجھے یا خدا سمجھے  غالب کی ساری مالی مشکلات سے عبارت تھی کلکتہ کے سخن میں دو باتیں بہت اہم ہوئیں۔ جنہوں نے غالب کو اپنی الجھن میں ڈال دیا ایک تو پنشن کی بحالی میں ناکامی اور دوسرا کلکتہ کے اکثر شعراء غالب کے حریف بن گئے مگر سس کے باوجود بھی وہ کلکتہ کی نئی تہذیبی زندگی سے بدگماں نہیں ہوئے کلکتہ کا عشق ہمیشہ ان کے میں زندہ رہا۔ 1847 میں غالب کو حادثہ پیش آیا کیونکہ غالب کو شروع ہی سے شطرنج اور چوسر کھیلنے می عادت تھی مرزا غالب اپنے احباب کے ساتھ اپنے ہی مکان پر کھیلتے تھے کیونکہ اس زمانے میں خوش باش امیروں اور ریئسوں کا اہم مشغلہ تھا مگر جیسے ہی کوئی سخت مزاج حاکم آ جاتا تو یہ کھیل کا سامان بلائے جان  بن جاتا اور غریبوں کی شامت آ جاتی. چنانچہ 1841 میں مرزا کے گھر پر چھاپا پڑ گیا وہ گرفتار ہوئے مگر معمولی جرمانہ کی ادائیگی پر رہا ہو گئے 1847 میں نئے کوتوال فیض الحسن کی مرزا سے نا معلوم بنا پر عداوت پیدا ہوگئی تھی ان کے مکان پر چھاپا نار کر گرفتار کر لیا گیا مقدمہ عدالت میں پیش ہوا خود بہادر شاہ ظفر نے انگریز کے نام خط لکھا شہر کے رئیسوں نے سفارشیں کیں مگر غالب سزا سے نا بچ سکے اپیل کرنے پر بھی سیشن جج نے فیصلہ بحال رکھا 6 ماہ قید با مشقت اور 200 جرمانہ کی سزا ہوئی غالب کچھ وقت زندان دہلی میں گزارا مگر وہ وقت سے پہلے ہی رہا ہو گئے1850 میں بہادر شاہ ظفر نے غالب کو انجمن دولہ نظام جنگ کے خطاب سے نوازا اور تیموری خاندان کی تاریخ لکھنے کا کام انہی کے سپرد کیا نومبر 1854 میں استاد ابرہیم ذوق کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر کے کلام کی اصلاح بھی غالب کے سپرد ہوئی کچھ اور مغل شہزادوں نے بھی غالب سے اصلاح لینا شروع کر دی غالب کی صحت 1857 سے خراب ہونا شروع ہو گئی غالب کا بھائی مرزا یوسف بیگ دیوانگی کی حالت میں چل بسا یہ صدمہ بھی غالب کے کیے سوہان روح ہو گیا غالب تمام عمر مسائل اور مصائب کا شکار رہے غالب 15 فروری 1869کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے غالب کو نظاالدین اولیا کے صحن میں دفن کیا گیا۔

 

 

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

hum ko maloom hai

jannat ki haqeeqat lekin

dil ke khush rakhnay ko

ghalib yeh khayaal acha hai

 

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

ishhq ne ghalib nikamma kar diya

warna hum bhi aadmi thay kaam ke

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

mohabbat mein nahi hai farq

jeeney aur marnay ka

isi ko dekh kar jeetay hain jis

kafir pay dam niklay

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

is saadgi pay kon nah mar jaye ae kkhuda

lartay hain aur haath mein talwar bhi nahi

 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

hazaron khuwaishe aisi

ke har khwahish pay dam niklay

bohat niklay marey armaan

lekin phir bhi kam niklay

 

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

un ke dekhe se jo aa jati hai mun par ronaqe

woh samajte hain ke bemaar ka haal acha hai

 

 

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

Ishrat qatra hai darya mein fanaa ho jana

dard ka had se guzarna hai dawa ho jana

 

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

yeh nah thi hamari qismat ke visale yaar hota

agar aur jeetay rehtay yahi intzaar hota

 

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

ragon mein dorrtay phirnay

ke hum nahi qaail

jab aankh hi se nah tapka

to phir lahoo kya hai

 

 

 

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

ishhq par zor nahi hai yeh woh aatish ghalib

ke lagaye nah lagey aur bujhaye nah banay

 

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

nah tha kuch to kkhuda tha kuch nah hota

to kkhuda hota

dooboya mujh ko honay ne nah hota

mein to kya hota

 

 

وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

woh aaye ghar mein hamaray kkhuda ki qudrat hai

kabhi hum un ko kabhi –apne ghar ko dekhte hai

 

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

aaina kyun nah dun ke tamasha kahin jisay

aisa kahan se lau ke tujh sa kahin jisay

 

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستاے کیوں

dil hi to hai nah sang o khisht dard se

bhar nah aaye kyun

royain ge hum hazaar baar koi hamein

staye kyun

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

ranj se khogar sun-hwa insaa to mit

jata hai ranj

Mushkilain mujh par parrin itni ke

aasan ho gayeen

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

be khudi be sabab nahi Ghalib

kuch to hai, jis ki parda daari hai

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

 

aah ko chahiye ik Umar assar hotay tak

kon jeeta hai tri zulff ke sir hotay tak

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

Bas-ki dushwaar hai har kaam ka aasan hona

aadmi ko bhi muyassar nahi insaa hona

 

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

hain aur bhi duniya mein sukhan war bohat achay

kehte hain ke ghalib ka hai andaaz bayan aur

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا

ishhq se tabiyat ne zeist ka maza paaya

dard ki dawa payi dard be dawa paaya

 

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

mout ka aik din Moueen hai

neend kyun raat bhar nahi aati

 

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

kaaba kis mun se jao ge ghalib

sharam tum ko magar nahi aati

 

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

hum ne mana ke taghaful nah karo ge lekin

khaak ho jayen ge hum tum ko khabar hotay tak

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

puchhte hain woh ke Ghalib kon hai

koi btlao ke hum batlaein kya

 

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

yeh kahan ki dosti hai ke banay hain dost naaseh

koi charah saaz hota koi gham gsar hota

 

 

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یارب کئی دیے ہوتے

meri qismat mein gham gir itna tha

dil bhi yarab kayi diye hotay

 

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

اور پھر وہ بھی زبانی میری

kab woh santa hai kahani meri

aur phir woh bhi zabani meri

 

کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ

کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے

karne gaye thay is se taghaful ka hum gilah

ki aik hi nigah ke bas khaak ho gaye

 

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

martay hain arzoo mein marnay ki

mout aati hai par nahi aati

 

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

hum wahan hain jahan se hum ko bhi

kuch hamari khabar nahi aati

Post a Comment

Please do not enter any spam link in the comment box

Previous Post Next Post