Allama Iqbal Poetry

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو برطانوی شہر ہندوستان میں پیدا ہوئے ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا اقبال کے آباؤ اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر میں یا انیسویں صدی کے ابتدا میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے۔ علامہ اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد دین دار آدمی تھے اپنے بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے سیالکوٹ کے اکثر مقامی علماء کے ساتھ تعلق دوستانہ تھا علامہ اقبال بسم اللہ کی عمر کو پہنچنے تو انہیں مولانا غلام حسین کے پاس بھیج دیا گیا مولانا غلام حسین مقامی مسجد میں درس دیا کرتے تھے شیخ نور محمد ک وہاں آنا جانا تھا یہاں سے علامہ اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا حسب دستور قرآن مجید سے ابتدا ہوئی۔ تقریباً ایک سال تک یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ شہر سے ایک عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے ایک بچے کو بیٹھے دیکھا صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی کرن نظر آئی پوچھا کہ کس کا بچہ ہے معلوم ہوا تو وہاں سے اٹھ کر شیخ نور محمد کے گھر کی طرف چل پڑے مولانا نے شیخ نور محمد کو زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی ضروری ہے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ علامہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے۔ شیخ نور محمد نے علامہ اقبال کو میر حسن کے سپرد کر دیا۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی تھا یہاں علامہ اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا تین سال گزر گئے اس دوران میں سید میر حسن نے Scotch Mission School پڑھانا شروع کردیا علامہ اقبال بھی وہی داخل ہو گئے اور اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور اسی سکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسز بھی شروع ہو چکی تھی لہذا علامہ اقبال کو ایف اے ک لیے کہیں جانا نہیں پڑا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی۔ 3مئی 1893 میں علامہ اقبال نے میٹرک کیا اور 1895 میں ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آ گئے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے اپنے لیے انگریزی، فلسفہ اور عربی کے مضامین کا انتخاب کیا انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے کے لئے اوریئنٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن جیسے بے مثال استاد ملے۔ اس وقت اورینٹل کالج گورنمنٹ کالج کی عمارت کا حصہ تھا ان دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا 1998 میں علامہ محمد اقبال نے بی اے پاس کیا اور پھر ایم اے فلسفہ میں داخلہ لے لیا ۔ مارچ 1899 میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پنجاب بھر میں اول آئے اس دوران نومبر 1899 کی ایک شام کچھ ہم جماعت انہیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں لے گئے بڑے بڑے سکہ بند اساتذہ اور شاگرد کثیر تعداد میں شریک تھے سننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا علامہ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے اس لیے ان کا نام مقتدیوں کے دور  میں پکارا گیا غزل پڑھنی شروع کی جب اس شعر پر پہنچے کہ موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عرق انفال کے تو اچھے اچھے استاد اچھل پڑے یہاں سے علامہ اقبال کی بحثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا ایم اے پاس کرنے کے بعد علامہ اقبال 13مئی 1899 کو اورینٹل کالج میں کی اور اسی سال آرنلڈ بھی یہی پرنسپل مقرر ہو گئے علامہ اقبال اورینٹل کالج میں 4 سال رہے اس درمیان میں 6 ماہ کی رخصت لے گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ان کی کمی کو بے حد محسوس کیا۔ 1903 میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے علامہ اقبال گورنمنٹ کالج میں مقرر ہو گئے بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے وہاں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ 1 اکتوبر 1905 کو یورپ جانے کے لیے 3 سال کی رخصت لے لی 25 دسمبر 1905 کو علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ جرمنی چلے گئے وہاں آپ نے فلسفہ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملتے ہی لندن واپس چلے گئے اور فائنل امتحانات کی تیاری شروع کر دی۔ جولائی 1908 کو نتیجہ نکلا اور کامیاب قرار پائے۔ اس کے بعد وطن واپس آ گئے ایک ماہ بعد عدالت میں وکالت شروع کر دی اس پیشے میں کچھ بی دن گزرے تھے کہM.O.A کالج علی گڑھ میں فلسفے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری کی پیشکش کی گئی مگر علامہ اقبال نے اپنے لیے وکالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے معزرت کر لی البتہ بعد میں حکومت پنجاب کے اسرار پر 10مئی 1910 سے گورنمنٹ کالج میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کردیا لیکن ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔ اب معلمی اور وکالت کو ساتھ ساتھ لے کے چلنا مشکل ہوتا جارہا تھا آخر 3 دسمبر 1910 کو گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہو گئے مگر کسی نا کسی حثیت سے کالج کے ساتھ تعلق برقرار رکھا۔ 13اپریل 1919 کو امرتسر شہر کے جلیان والا باغ میں ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا Reginald Dyer نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا اور فائرنگ شروع کروائی اور سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اس حادثہ کی خبر جب علامہ اقبال تک پہنچی تو انہوں نے مرنے والوں کی یاد میں  اشعار بھی لکھے اور پھر علامہ اقبال مسلمانوں کی حمایت کے لیے کھڑے ہوئے اور پھر 21  اپریل 1938کو اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے.

 

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

khudi ko kar buland itna ke har taqdeer se pehlay

kkhuda bande se khud pouchye bta teri Raza kya hai

 

 

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

sitaron se agay jahan aur bhi hain

abhi ishhq ke imteha aur bhi hain

 

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ

mana ke teri deed ke qabil nahi hon mein

to mera shoq dekh mra intzaar dekh

 

 

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

to shahin hai parwaaz hai kaam tera

tre samnay aasmaan aur bhi hain

 

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتاہے

مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

nasha pila ke girana to sab ko aata hai

maza to tab hai ke gar tu ko thaam le saqi

 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 

hazaron saal nargis apni be noori pay roti hai

barri mushkil se hota hai chaman mein deedaa war peda

 


اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

acha hai dil ke sath rahay Pasban aqal

lekin kabhi kabhi usay tanha bhi chore day

 

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

apne mann mein doob kar pa ja suraagh zindagi

to agar mera nahi bantaa nah ban apna to ban


 

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

duniya ki mehafilon se ukta gaya hon ya rab

kya lutaf anjuman ka jab dil hi bujh gaya ho

 

 

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

nahi tera nashiman qasr sultaani ke gunbad par

to shahin hai basera kar pahoron ki chatanoo mein

 

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

 

dil se jo baat nikalti hai assar rakhti hai

par nahi taaqat parwaaz magar rakhti hai

 

 

علم میں بھی سرور ہے لیکن

یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

ilm mein bhi suroor hai lekin

yeh woh jannat hai jis mein hoor nahi

 

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس  رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ae Tair lahoti is rizaq se mout achi

jis rizaq se aati ho parwaaz mein kotahi

 


 

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

haya nahi hai zamane ki aankh mein baqi

kkhuda kere ke jawani tri rahay be daagh

 

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

ghulami mein nah kaam aati hain shamsherain nah tadbeerye

jo ho zouq yaqeen peda to kat jati hain zanjeeren

 

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

faqat nigah se hota hai faisla dil ka

nah ho nigah mein shokhi to dilbari kya hai

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

jis khait se d_hqan ko muyassar nahi rozi

is khait ke har khosha gandum ko jala do

 

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

haram pak bhi Allah bhi quran bhi aik

kuch barri baat thi hotay jo musalman bhi aik

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

nah samjhoo ge to mit jao ge ae hndostan walo

tumhari dastan tak bhi nah hogi dastanoon mein

 


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

amal se zindagi banti hai jannat bhi jahannum bhi

yeh khaki apni fitrat mein nah noori hai nah naari hai

 

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی

نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

tamanna dard dil ki ho to kar khidmat faqeero ki

nahi milta yeh gohar badshahon ke khazino mein

 

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

baatil se dabnay walay ae aasmaan nahi hum

so baar kar chuka hai to imteha hamara

 

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

jamhoriat ik tarz hukoomat hai ke jis mein

bundon ko gina karte hain tola nahi karte

 

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں

یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

ishhq bhi ho hijaab mein husn bhi ho hijaab mein

ya to khud aashkaar ho ya mujhe aashkaar kar

 

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

aqaabi rooh jab bedaar hoti hai jawanoo mein

nazar aati hai un ko apni manzil asmano mein

 

 

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں

عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

aqal ko tanqeed se fursat nahi

ishhq par aamaal ki bunyaad rakh

 

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ مسلمان بھی ہو

yun to syed bhi ho Mirza bhi ho Afghan bhi ho

tum sabhi kuch ho batao musalman bhi ho

 

ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا

یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

tre azad bundon ki nah yeh duniya nah woh duniya

yahan marnay ki pabandi wahan jeeney ki pabandi

 


انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں

anokhi waza hai saaray zamane se nirale hain

yeh aashiq kon si bastii ke yarab rehne walay

hai

 

 

Post a Comment

Please do not enter any spam link in the comment box

Previous Post Next Post